یہ تصویر عظمیٰ نامی ایک کم سن بچی کی ہے جو گھریلو ملازمہ تھی۔ اس کے مالک نے اسے غسل خانے میں سونے کی جگہ دی، ٹھیک طرح کھانا نہیں دیتا تھا، اور پھر اسے اپنے ساتھ لے گیا۔ ایک دن
چھوٹی عظمیٰ نے اپنے مالک کی بیٹی کے کھانے کا ایک چھوٹا سا نوالہ کھا لیا۔ اس بات پر مالک اور اس کی بیٹی سخت غضبناک ہوگئے، اور اُس کے سر پر اسٹیل کی سلاخ سے بار بار وار کیے۔ اسپتال لے جانے کے بجائے اُسے الیکٹرک شاک دیے گئے۔ نتیجتاً عظمیٰ جان کی بازی ہار گئی۔
جب انہیں کوئی راستہ نہ سوجھا تو انہوں نے اس کی لاش کو ایک سوٹ کیس میں ڈال کر گہرے نالے میں پھینک دیا۔ پھر خود ہی پولیس کو فون کرکے عظمیٰ پر پیسے اور سونے کی چوری کا الزام لگایا اور فرار ہوگئے۔ اس حرکت نے پولیس کو شبہ میں ڈال دیا، اور بالآخر انہوں نے مجرموں کو پکڑ کر جیل پہنچا دیا۔
جب اس کی لاش نالے سے نکالی گئی تو عینی شاہد نے بتایا کہ
"اس کا چہرہ نیلوں سے بھرا ہوا تھا، بال بکھرے ہوئے تھے، اس کی زبان اور سینے پر زخم تھے۔"
اس کے والدین بھی اسے پہچان نہیں سکے۔ وہ معصوم روح صرف 17سال کی تھی۔ یہ سب لکھتے ہوئے میرا دل پھٹ رہا ہے، آنکھیں رُک نہیں رہے۔

Comments
Post a Comment