وہ اپنے باپ کے جنازے میں کھڑی تھی


 

وہ اپنے باپ کے جنازے میں کھڑی تھی۔ لوگ تعزیت کے لیے آ رہے تھے۔ اچانک ایک اجنبی عورت نے آ کر اسے گلے لگا لیا۔
 "تمہارے باپ نے میری جان بچائی تھی"، عورت نے روتے ہوئے کہا۔
لڑکی حیران رہ گئی۔ باپ تو معمولی کلرک تھے۔ کس کی جان بچائی تھی؟
عورت نے بتایا: "دس سال پہلے کی بات ہے، میں نے دریا میں چھلانگ لگا دی تھی۔ تمہارے باپ نے مجھے بچایا۔ ہسپتال میں روز آتے، پھولوں کا گلدستہ لاتے۔
" لڑکی کو یقین نہیں آیا۔ باپ تو پھول خریدنے کی استعداد نہیں رکھتے تھے۔
اگلے ہفتے ایک بوڑھا آیا۔ "تمہارے باپ نے میری دکان بچائی تھی۔ میں قرض کے نیچے دب کر جان دینے جا رہا تھا۔ انہوں نے اپنی ساری جمع پونجی دے دی۔
" لڑکی کی حیرت بڑھتی گئی۔
 پھر ایک نوجوان آیا۔ "سر نے مجھے پڑھایا تھا۔ میں سڑک کنارے فٹ پاتھ پر بیٹھا سبزیاں بیچتا تھا۔ وہ روز آتے، ایک گھنٹہ پڑھاتے، سبزیاں خریدتے۔
" ایک کے بعد ایک لوگ آتے رہے۔ ہر کوئی ایک نیا قصہ لے کر آتا۔ باپ کے بارے میں وہ باتیں جو لڑکی نے کبھی نہیں سنی تھیں۔
 آخری دن ایک اندھی بڑھیا لڑکے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے آئی۔ "بیٹا، تمہارے باپ نے میرا آنکھوں کا آپریشن کرانے کے لیے اپنی گاڑی بیچ دی تھی۔ قسمت نے انہیں میری آنکھیں واپس دلوانے نہیں دیں۔
" لڑکی نے روتی ہوئی پوچھا: "لیکن امّاں، آپ تو اندھی ہیں؟
" بڑھیا نے مسکراتے ہوئے کہا: "ہاں بیٹا، مگر تمہارے باپ نے میری بیٹی کی شادی کرا دی۔ اب میرا بیٹا مجھے دیکھ لیتا ہے۔" 
 لڑکی گھر لوٹی تو باپ کے کمرے میں ایک پرانی ڈائری ملی۔ آخری صفحے پر لکھا تھا:
 **"دنیا مجھے ایک غریب آدمی سمجھتی ہے۔ مگر میں نے اپنی زندگی میں ایسے خزانے جمع کیے ہیں جو کسی بینک میں نہیں، لوگوں کے دلوں میں محفوظ ہیں۔ جب میں مر جاؤں گا، تو میری بیٹی کو پتہ چلے گا کہ اس کا باپ اصل میں کتنا امیر تھا۔"**
لڑکی نے ڈائری سینے سے لگا لی۔ اسے اب سمجھ آئی تھی کہ باپ کی میراث روپے پیسے میں نہیں، بلکہ ان نیک کاموں میں تھی جو انہوں نے چپ چاپ کیے تھے۔
 اور پھر اس نے عہد کیا کہ وہ بھی اپنی زندگی میں ایسے ہی خزانے جمع کرے گی - لوگوں کے دلوں میں۔


Comments